ایک پہاڑی سلسلے کے اوپر رن وے بنا ہوا تھا۔ ایک طیارہ مسافروں سے بھر چکا تھا۔ ابھی تک پائلٹ نہیں آیا تھا۔ کہ اچانک مسافروں نے دیکھا کہ دو افراد ہاتھوں میں سفید چھڑی لئے آنکھوں پر سیاہ چشمے پہنے آئے۔ اور کاک پٹ میں چلے گئے۔مسافروں میں چہ می گوئیاں شروع ہوئیں کہ پائلٹ تو دونوںنابینا ہیں۔ سپیکر پر آواز آئی کہ میں پائلٹ فلاں صاحب جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں اور میرے ساتھ فلاں صاحب میرے معاون پائلٹ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم دونوں نابینا ہیں۔ لیکن جہاز کے جدید آلات اور ہمارے وسیع تجربے کو دیکھتے ہوئے فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم باآسانی جہاز چلا لیتے ہیں۔بے شمار پروازیں کر چکے ہیں۔ مسافروں میں بے چینی کچھ کم ہوئی لیکن ان کی تشویش کم نہ ہوئی۔
خیر انجن سٹارٹ ہوا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا دونوں اطراف میں کھائیاں تھیں۔ مسافر سانس روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاز دوڑتا گیا۔ سامنے بھی کھائی تھی۔ لیکن جہاز دوڑ رہا تھا۔ کھائی کےبالکل قریب جاکر مسافروں کی چیخیں نکل گئیں کہ جہاز نے فلائنگ گیئر لگایا اور ہوا میں بلند ہوگیا۔
مائک کھلا رہ گیا تھا۔ معاون پائلٹ کی آواز آئی۔ پائلٹ سے کہہ رہا تھا۔
“استاد جی کسی دن مسافروں کو چیخنے میں دیر ہوگئی تو پھر کیا بنے گا؟”